ہم عمر کے ساتھ ہیں سفر میں

ہم عمر کے ساتھ ہیں سفر میں
by مضطر خیرآبادی

ہم عمر کے ساتھ ہیں سفر میں
بیٹھے ہوئے جا رہے ہیں گھر میں

ہم لٹ گئے تیری رہ گزر میں
یہ ایک ہوئی ہے عمر بھر میں

اب کون رہا کہ جس کو دیکھوں
اک تو تھا سو آ گیا نظر میں

حسرت کو ملا ہے خانۂ دل
تقدیر کھلی غریب گھر میں

آنکھیں نہ چراؤ دل میں رہ کر
چوری نہ کرو خدا کے گھر میں

اب وصل کی رات ہو چکی ختم
لو چھپ رہو دامن سحر میں

میں آپ ہی ان سے بولتا ہوں
بیٹھا ہوں زبان نامہ بر میں

مضطرؔ کرو دل ہی دل میں شکوے
رہ جائے گی بات گھر کی گھر میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse