ہم معنی ہوس نہیں اے دل ہوائے دوست

ہم معنی ہوس نہیں اے دل ہوائے دوست
by محمد علی جوہر

ہم معنی ہوس نہیں اے دل ہوائے دوست
راضی ہو بس اسی میں ہو جس میں رضائے دوست

طغرائے امتیاز ہے خود ابتلائے دوست
اس کے بڑے نصیب جسے آزمائے دوست

یاں جنبش مژہ بھی گناہ عظیم ہے
چپ چاپ دیکھتے رہو جو کچھ دکھائے دوست

ملتی نہیں کسی کو سند امتحاں بغیر
دار و رسن کے حکم کو سمجھو صلائے دوست

یعقوب پر فضول ہوئے لوگ خندہ زن
یاں لا مکاں سے آتی ہے بوئے قبائے دوست

کیا کم تھا ہجر یار ہی پھر اس پہ رشک غیر
دشمن کو بھی خدا نہ کرے مبتلائے دوست

ہے روح بھی نثار بدن بھی نثار یار
دل بھی فدائے دوست جگر بھی فدائے دوست

جوہرؔ وہ صبر آپ ہی دے گا اگر ہمیں
ہے امتیاز وعدۂ صبر آزمائے دوست

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse