ہم موت بھی آئے تو مسرور نہیں ہوتے
ہم موت بھی آئے تو مسرور نہیں ہوتے
مجبور غم اتنے بھی مجبور نہیں ہوتے
دل ہی میں نہیں رہتے آنکھوں میں بھی رہتے ہو
تم دور بھی رہتے ہو تو دور نہیں ہوتے
پڑتی ہیں ابھی دل پر شرمائی ہوئی نظریں
جو وار وہ کرتے ہیں بھرپور نہیں ہوتے
امید کے وعدوں سے جی کچھ تو بہلتا تھا
اب یہ بھی ترے غم کو منظور نہیں ہوتے
ارباب محبت پر تم ظلم کے بانی ہو
یہ ورنہ محبت کے دستور نہیں ہوتے
کونین پہ بھاری ہے اللہ رے غرور ان کا
اتنے بھی ادا والے مغرور نہیں ہوتے
ہے عشق ترا فانیؔ تشہیر بھی شہرت بھی
رسوائے محبت یوں مشہور نہیں ہوتے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |