ہم میکدے سے مر کے بھی باہر نہ جائیں گے
ہم میکدے سے مر کے بھی باہر نہ جائیں گے
میکش ہماری خاک کے ساغر بنائیں گے
وہ اک کہیں گے ہم سے تو ہم سو سنائیں گے
منہ آئیں گے ہمارے تو اب منہ کی کھائیں گے
کچھ چارہ سازی نالوں نے کی ہجر میں مری
کچھ اشک میرے دل کی لگی کو بجھائیں گے
وہ مثل اشک اٹھ نہیں سکتا زمین سے
جس کو حضور اپنی نظر سے گرائیں گے
جھونکے نسیم صبح کے آ آ کے ہجر میں
اک دن چراغ ہستیٔ عاشق بجھائیں گے
صحرا کی گرد ہوگی کفن مجھ غریب کا
اٹھ کر بگولے میرا جنازہ اٹھائیں گے
اب ٹھان لی ہے دل میں کہ سر جائے یا رہے
جیسے اٹھے گا بار محبت اٹھائیں گے
گردش نے میری چرخ کا چکرا دیا دماغ
نالوں سے اب زمیں کے طبق تھرتھرائیں گے
بیدمؔ وہ خوش نہیں ہیں تو اچھا یوں ہی سہی
ناخوش ہی ہو کے غیر مرا کیا بنائیں گے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |