ہم نہ بت خانے میں نے مسجد ویراں میں رہے
ہم نہ بت خانے میں نے مسجد ویراں میں رہے
حسرت و آرزوئے جلوۂ جاناں میں رہے
خوں ہے وہ جس سے کہ ہو دامن قاتل رنگیں
خون فاسد ہے جو خالی سر مژگاں میں رہے
ہم نے مصنوع سے صانع کی حقیقت پائی
بے سبب ہم نہیں نظارۂ خوباں میں رہے
صبح خورشید کو دیکھا ہوس عارض میں
شام سے روشنیٔ شمع شبستاں میں رہے
توڑا زنار کو تسبیح کو پھینکا ہم نے
عشق رخ تھا ہوس نور درخشاں میں رہے
جا بجا ہم کو رہی جلوۂ جاناں کی تلاش
دیر و کعبہ میں پھرے صحبت رہباں میں رہے
خلوت دل کی نہ کچھ قدر کو سمجھے حاجی
طوف کعبہ کے لیے دشت و بیاباں میں رہے
ان اسیروں کو ہوئی قید تعین سے نجات
جو کہ پابند ترے گیسوئے پیچاں میں رہے
اس زمیں میں غزل اک اور بھی لکھو بہرامؔ
یہ دو غزلہ تو بھلا آپ کے دیواں میں رہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |