ہم نے تو اجاڑ اور بستی دیکھی
ہم نے تو اجاڑ اور بستی دیکھی
دنیا کی سبھی بلند اور پستی دیکھی
صورت پہ خیال اپنی آیا جس دم
یک لحظہ حباب وار پستی دیکھی
کتنوں کے معاش کی درستی دیکھی
کتنوں کی بہ خانہ فاقہ مستی دیکھی
دنیا ہے بسان قحبہ خوش دل غمگیں
روتی ہے کبھی کبھی تو ہنستی دیکھی
جس دست کی میں دراز دستی دیکھی
اس دست کی آخرش شکستی دیکھی
جس نے بستم کیا مکاں کو تعمیر
دیوار پھر اس مکاں کی کھسکتی دیکھی
با وصف عیاں ہے لیک بعضی خلقت
اس شوخ کی دید کو ترستی دیکھی
یہ طرفہ ہے ماجرا کہ کعبۂ دل میں
آفریدیؔ کی ہم نے بت پرستی دیکھی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |