ہم نے جانا تھا سخن ہوں گے زباں پر کتنے
ہم نے جانا تھا سخن ہوں گے زباں پر کتنے
پر قلم ہاتھ جو آئی لکھے دفتر کتنے
میں نے اس اس صناع سے سر کھینچا ہے
کہ ہر اک کوچے میں جس کے تھے ہنر ور کتنے
کشور عشق کو آباد نہ دیکھا ہم نے
ہر گلی کوچے میں اوجڑ پڑے تھے گھر کتنے
آہ نکلی ہے یہ کس کی ہوس سیر بہار
آتے ہیں باغ میں آوارہ ہوئے پر کتنے
دیکھیو پنجۂ مژگاں کی ٹک آتش دستی
ہر سحر خاک میں ملتے ہیں در تر کتنے
کب تلک یہ دل صد پارہ نظر میں رکھیے
اس پر آنکھیں ہی سیے رہتے ہیں دلبر کتنے
عمر گزری کہ نہیں دو آدم سے کوئی
جس طرف دیکھیے عرصے میں ہیں اب خر کتنے
تو ہے بیچارہ گدا میرؔ ترا کیا مذکور
مل گئے خاک میں یاں صاحب افسر کتنے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |