ہم نے سو سو طرح بنائی بات
ہم نے سو سو طرح بنائی بات
سامنے اس کے بن نہ آئی بات
سچ تو کہتا ہے دوست دشمن ہے
ہم نے ناصح کی آزمائی بات
بات کے کاٹنے کا شکوہ کیا
ہو جہاں قطع آشنائی بات
وعدے پر اس سے کیوں قسم مانگے
مفت بگڑی بنی بنائی بات
ہم کو دشمن سے ہو گئی معلوم
دوست نے ہم سے جو چھپائی بات
کیا شب وصل کو گھٹانا ہے
غم ہجراں کی کیوں بڑھائی بات
یہ بھی ان کے دہن کی خوبی ہے
کہ سمجھ میں مری نہ آئی بات
شہر سے کیوں کریں وہ عزم سفر
ہم نشیں تو نے کیا اڑائی بات
واں سے جا کر خبر نہیں لایا
ہے کہیں کی سنی سنائی بات
بھید اپنوں سے بھی نہ کہہ ناظمؔ
منہ سے نکلی ہوئی پرائی بات
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |