ہم نے پائی لذت دیدار لیکن دور سے

ہم نے پائی لذت دیدار لیکن دور سے
by مضطر خیرآبادی

ہم نے پائی لذت دیدار لیکن دور سے
ان کی صورت دیکھ لی سو بار لیکن دور سے

وہ دکھاتے ہیں ہمیں رخسار لیکن دور سے
اس کا مطلب ہے کہ کر لو پیار لیکن دور سے

اس نے جانچا میرا درد دل مگر آیا نہ پاس
اس نے دیکھا میرا حال زار لیکن دور سے

روزن دیوار سے حسرت بھری آنکھیں لڑیں
ہو گئیں ان سے نگاہیں چار لیکن دور سے

اس نے آنے کا کیا ہے قول لیکن تا بہ در
اس نے ملنے کا کیا اقرار لیکن دور سے

پاس مضطرؔ کس طرح جاتے ہجوم یاس میں
ہو گیا ان کا ہمیں دیدار لیکن دور سے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse