ہم وہ نالاں ہیں بولی ٹھولی میں
ہم وہ نالاں ہیں بولی ٹھولی میں
بلبلوں کو جو لیں ٹھٹھولی میں
جامہ زیبوں سے اس کو نسبت کیا
لاکھ ٹکڑے ہیں گل کی چولی میں
رنج غم کھانے کو خدا نے دیا
کیا نہیں مجھ گدا کی جھولی میں
الف لیلیٰ سنے وہ گل تو سنائیں
بلبلیں اک ہزار بولی میں
خون ناحق ہمارا اچھلے گا
رنگ لایا جو شوخ ہولی میں
چشم عبرت سے دیکھ پردہ نشیں
شکل تابوت کی ہے ڈولی میں
سبزۂ خط ہو کیوں نہ جوہر خال
زہر تریاک کی ہے گولی میں
بوسہ اس سرو قد سے ہم آزاد
مانگ لیتے ہیں بولی ٹھولی میں
شادؔ رو رو دیا ہے شبنم نے
جب گلوں نے لیا ٹھٹھولی میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |