ہم کو کب انتظار ہے فصل بہار ہو نہ ہو
ہم کو کب انتظار ہے فصل بہار ہو نہ ہو
داغ جگر شگفتہ باد گل بہ کنار ہو نہ ہو
درد تو میرے پاس سے مرتے تلک نہ جائیو
طاقت صبر ہو نہ ہو تاب و قرار ہو نہ ہو
صبح تو ہوئی ہے دیر کیا تیری بلا سے ساقیا
جام شراب تو تو دے ہم کو خمار ہو نہ ہو
تیر نگہ لگا کے تم کہتے ہو پھر لگا نہ خوب
میرا تو کام ہو گیا سینہ کے پار ہو نہ ہو
طالب یک نظارہ ہوں اتنا بھی مجھ سے بیر کیا
منہ تو مری طرف کو ہو گو کہ دو چار ہو نہ ہو
حلقۂ در ہے حلقہ زن کوئی بھلا خبر تو لو
دل مرا شادی مرگ ہے ہے وہی یار ہو نہ ہو
حاتمؔ اگر گناہ کرے شکوہ نہ کر خدا سے ڈر
فدوی جاں نثار ہے تو بھی ہزار ہو نہ ہو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |