ہم ہیں اور شغل عشق بازی ہے

ہم ہیں اور شغل عشق بازی ہے
by محمد ابراہیم ذوق

ہم ہیں اور شغل عشق بازی ہے
کیا حقیقی ہے کیا مجازی ہے

دختر رز نکل کے مینا سے
کرتی کیا کیا زباں درازی ہے

خط کو کیا دیکھتے ہو آئنے میں
حسن کی یہ ادا طرازی ہے

ہندوئے چشم طاق ابرو میں
کیا بنا آن کر نمازی ہے

نذر دیں نفس کش کو دنیا دار
واہ کیا تیری بے نیازی ہے

بت طناز ہم سے ہو ناساز
کارسازوں کی کارسازی ہے

سچ کہا ہے کسی نے یہ اے ذوقؔ
مال موذی نصیب غازی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse