ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے
ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکا تو نہیں مارا چوری تو نہیں کی ہے
نا تجربہ کاری سے واعظ کی یہ ہیں باتیں
اس رنگ کو کیا جانے پوچھو تو کبھی پی ہے
اس مے سے نہیں مطلب دل جس سے ہے بیگانہ
مقصود ہے اس مے سے دل ہی میں جو کھنچتی ہے
اے شوق وہی مے پی اے ہوش ذرا سو جا
مہمان نظر اس دم ایک برق تجلی ہے
واں دل میں کہ صدمے دو یاں جی میں کہ سب سہہ لو
ان کا بھی عجب دل ہے میرا بھی عجب جی ہے
ہر ذرہ چمکتا ہے انوار الٰہی سے
ہر سانس یہ کہتی ہے ہم ہیں تو خدا بھی ہے
سورج میں لگے دھبا فطرت کے کرشمے ہیں
بت ہم کو کہیں کافر اللہ کی مرضی ہے
تعلیم کا شور ایسا تہذیب کا غل اتنا
برکت جو نہیں ہوتی نیت کی خرابی ہے
سچ کہتے ہیں شیخ اکبرؔ ہے طاعت حق لازم
ہاں ترک مے و شاہد یہ ان کی بزرگی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |