ہوئی ہے زندگانی دشت غربت میں بسر میری
ہوئی ہے زندگانی دشت غربت میں بسر میری
وطن میں جب نہ پہنچا میں تو کیا پہنچے خبر میری
تڑپتا ہوں تو ہو جاتی ہے ظالم کو خبر میری
بنی جاتی ہے خود آہ رسا پیغامبر میری
بتائے دیتی ہے کیفیت درد جگر ان کو
ستم ہے مل گئی ان کی نگاہوں سے نظر میری
ترے انصاف کے صدقے تری تقسیم کے قرباں
شب عشرت کی شام ان کی شب غم کی سحر میری
وطن میں اس سے آنکھیں پھیر لوں یہ ہو نہیں سکتا
رہی ہے بے کسی غربت میں برسوں ہم سفر میری
جواب نامہ تو لایا مگر حیرت ہے دے کس کو
کہ صورت ہی نہیں پہچانتا ہے نامہ بر میری
چھپاؤں لاکھ لیکن پیار کی صورت نہیں چھپتی
جو ہیں اہل نظر پہچان لیتے ہیں نظر میری
نہ وہ آئے نہ موت آئی نہ جیتا ہوں نہ مرتا ہوں
یہ عالم ہے مجھے بھی اب نہیں صفدرؔ خبر میری
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |