ہوئے تھے بھاگ کے پردے میں تم نہاں کیونکر
ہوئے تھے بھاگ کے پردے میں تم نہاں کیونکر
وہ پہلی وصل کی شب شوخیاں تھیں ہاں کیونکر
فلک کو دیکھ کے کہتا ہوں جوش وحشت میں
الٰہی ٹھہرے مری آہ کا دھواں کیونکر
تمہارے کوچے میں اس ناتواں کا تھا کیا کام
مجھے بھی سوچ ہے آیا ہوں میں یہاں کیونکر
زباں ہے لذت بوسہ سے بند اے ظالم
مزہ بھرا ہے جو دل میں کروں بیاں کیونکر
شب وصال سے شکوے ہزاروں ہیں جی میں
الٰہی بند رہے گی مری زباں کیونکر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |