ہوئے جناب میں اب تک نہ تیرے ہم گستاخ
ہوئے جناب میں اب تک نہ تیرے ہم گستاخ
خدا کے واسطے ہم سے نہ ہو صنم گستاخ
چھپایا راز محبت کو دل میں پر ہیہات
کرے ہے نام مرا بد یہ چشم نم گستاخ
جو آوے جی میں سو کہہ لے میں ہوں وہ اے پیارے
رہوں ہزار حضوری میں پر ہوں کم گستاخ
کہا گلے سے لگا لے تو التفات نہیں
کہے ہے تس پہ مجھے کیوں تو دمبدم گستاخ
یہی امید ہے چنداؔ کو خوب رویوں میں
رکھے ہمیشہ تیرا یا علی کرم گستاخ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |