ہوئے کارواں سے جدا جو ہم رہ عاشقی میں فنا ہوئے (I)
ہوئے کارواں سے جدا جو ہم رہ عاشقی میں فنا ہوئے
جو گرے تو نقش قدم بنے جو اٹھے تو بانگ درا ہوئے
جو ہوا سے زلف بکھر گئی نظر ان کی صاف بدل گئی
جو اسیر حلقۂ ناز تھے وہ قتیل تیغ ادا ہوئے
ہوا بعد وصل عجب مزا کہ خموش بیٹھے جدا جدا
ہمہ تن میں صبر و سکوں ہوا ہمہ تن وہ شرم و حیا ہوئے
اٹھے ہم جو خواب و خیال ہے لگے تکنے دیدۂ حال سے
کہ وہ کب اٹھے وہ کدھر گئے ابھی پاس تھے ابھی کیا ہوئے
جو نگہ ہے چشم سیاہ میں وہی برق طور ہے راہ میں
تری آنکھ پر جو فدا ہوئے وہ شہید راہ خدا ہوئے
بنے قدرؔ ایسے غبار ہم ہوئے گردشوں میں وہ خار ہم
کہ مثال دائرۂ فلک جو اٹھے تو بے سر و پا ہوئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |