ہوئے کارواں سے جدا جو ہم رہ عاشقی میں فنا ہوئے (II)

ہوئے کارواں سے جدا جو ہم رہ عاشقی میں فنا ہوئے
by قدر بلگرامی

ہوئے کارواں سے جدا جو ہم رہ عاشقی میں فنا ہوئے
جو گرے تو نقش قدم بنے جو اٹھے تو بانگ درا ہوئے

کبھی داغ کھاتے ہی آہ کی کہیں آہ کرتے ہی رو دئے
کبھی ہم چمن کی ہوا ہوئے کبھی ہم ہوا کی گھٹا ہوئے

جو ہوائے درد بکھر گئی نظر ان کی صاف بدل گئی
جو اسیر حلقۂ ناز تھے وہ قتیل تیغ ادا ہوئے

ہمہ تن کبھی ہوئے درد و غم ہمہ تن کبھی ہوئے صبر ہم
کبھی آپ اپنا مرض ہوئے کبھی آپ اپنی دوا ہوئے

ہوا بعد وصل عجب مزا کہ خموش بیٹھے جدا جدا
ہمہ تن میں صبر و سکوں ہوا ہمہ تن و شرم و حیا ہوئے

اٹھے ہم جو خواب و خیال سے لگے تکنے دیدۂ جال سے
کہ وہ کب اٹھے وہ کدھر گئے ابھی پاس تھے ابھی کیا ہوئے

یہ قدم قدم پہ جمیں گے پاؤں کہ بڑھ سکو گے نہ آگے تم
ہو تمہارے کوچے کی خاک میں کہیں دفن اہل وفا ہوئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse