ہوئے ہیں گم جس کی جستجو میں اسی کی ہم جستجو کریں گے

ہوئے ہیں گم جس کی جستجو میں اسی کی ہم جستجو کریں گے
by وحشت کلکتوی

ہوئے ہیں گم جس کی جستجو میں اسی کی ہم جستجو کریں گے
رکھا ہے محروم جس نے ہم کو اسی کی ہم آرزو کریں گے

گئے وہ دن جب کہ اس چمن میں ہوائے نشو و نما تھی ہم کو
خزاں کو دیکھا نہیں ہے ہم نے کہ خواہش رنگ و بو کریں گے

حکایت آرزو ہے نازک زبان کیا خاک کہہ سکے گی
لب خموش و نگاہ حسرت سے دل کی ہم گفتگو کریں گے

جگہ جو آنکھوں میں میں نے دی تھی تو ان سے تھی چشم راز داری
یہ کیا خبر تھی کہ اشک میرے مجھی کو بے آبرو کریں گے

ابھی تو گم کردہ راہ خود ہیں مئے محبت کی بے خودی میں
اگر کبھی آپ میں ہم آئے تو اس کی بھی جستجو کریں گے

اس انجمن میں کہ چشم ساقی کفیل ہو عیش زندگی کی
وہ بادہ خواری میں خام ہوں گے جو فکر جام و سبو کریں گے

طہارت ظاہری سے حاصل نہ ہو سکے گی صفائے باطن
بہا کے ہم خون توبہ وحشتؔ اسی سے اک دن وضو کریں گے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse