ہوائے شب بھی ہے عنبر افشاں عروج بھی ہے مہ مبیں کا
ہوائے شب بھی ہے عنبر افشاں عروج بھی ہے مہ مبیں کا
نثار ہونے کی دو اجازت محل نہیں ہے نہیں نہیں کا
اگر ہو ذوق سجود پیدا ستارہ ہو اوج پر جبیں کا
نشان سجدہ زمین پر ہو تو فخر ہے وہ رخ زمیں کا
صبا بھی اس گل کے پاس آئی تو میرے دل کو ہوا یہ کھٹکا
کوئی شگوفہ نہ یہ کھلائے پیام لائی نہ ہو کہیں کا
نہ مہر و مہ پر مری نظر ہے نہ لالہ و گل کی کچھ خبر ہے
فروغ دل کے لیے ہے کافی تصور اس روئے آتشیں کا
نہ علم فطرت میں تم ہو ماہر نہ ذوق طاعت ہے تم سے ظاہر
یہ بے اصولی بہت بری ہے تمہیں نہ رکھے گی یہ کہیں کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |