ہوتا ہے یاں جہاں میں ہر روز و شب تماشا
ہوتا ہے یاں جہاں میں ہر روز و شب تماشا
دیکھا جو خوب تو ہے دنیا عجب تماشا
ہر چند شور محشر اب بھی ہے در پہ لیکن
نکلے گا یار گھر سے ہووے گا جب تماشا
بھڑکے ہے آتش غم منظور ہے جو تجھ کو
جلنے کا عاشقوں کے آ دیکھ اب تماشا
طالع جو میرؔ خواری محبوب کو خوش آئی
پرغم یہ ہے مخالف دیکھیں گے سب تماشا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |