ہوویں برعکس بھلا کیوں نہ وہ اغیار سے خوش
ہوویں برعکس بھلا کیوں نہ وہ اغیار سے خوش
کسی معشوق کو دیکھا نہ وفادار سے خوش
ہر دعا پر ہمیں دشنام میسر ہے کہاں
شامت نفس ہے گر ہوویں نہ سرکار سے خوش
نقد دل بھی جو کوئی دے کے نہ مانگے بوسہ
وہ ہوا کرتے ہیں بس ایسے خریدار سے خوش
غور سے میں نے جو دیکھا تو کہیں عالم میں
کوئی ہوگا نہ زیادہ ترے بیمار سے خوش
کیا عجب مجھ سے خفا ہووے اگر وہ عارفؔ
کسی معشوق کو دیکھا نہ وفادار سے خوش
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |