ہوں میں پروانہ مگر شمع تو ہو رات تو ہو

ہوں میں پروانہ مگر شمع تو ہو رات تو ہو
by اکبر الہ آبادی

ہوں میں پروانہ مگر شمع تو ہو رات تو ہو
جان دینے کو ہوں موجود کوئی بات تو ہو

دل بھی حاضر سر تسلیم بھی خم کو موجود
کوئی مرکز ہو کوئی قبلۂ حاجات تو ہو

دل تو بے چین ہے اظہار ارادت کے لیے
کسی جانب سے کچھ اظہار کرامات تو ہو

دل کشا بادۂ صافی کا کسے ذوق نہیں
باطن افروز کوئی پیر خرابات تو ہو

گفتنی ہے دل پر درد کا قصہ لیکن
کس سے کہیے کوئی مستفسر حالات تو ہو

داستان غم دل کون کہے کون سنے
بزم میں موقع اظہار خیالات تو ہو

وعدے بھی یاد دلاتے ہیں گلے بھی ہیں بہت
وہ دکھائی بھی تو دیں ان سے ملاقات تو ہو

کوئی واعظ نہیں فطرت سے بلاغت میں سوا
مگر انسان میں کچھ فہم اشارات تو ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse