ہوں وہ مومن جسے ایماں سے سروکار نہیں
ہوں وہ مومن جسے ایماں سے سروکار نہیں
وہ برہمن ہوں جسے حاجت زنار نہیں
گنگ وہ کان جو وقف سخن یار نہیں
کور وہ آنکھ جسے حسرت دیدار نہیں
کفر سے کام نہ ایمان سے مطلب ہے ہمیں
دونوں عالم سے بجز تیرے سروکار نہیں
کیا خبردار کرے گا تو ہمیں او زاہد
آپ تو اپنی حقیقت سے خبردار نہیں
کب ترے جلوۂ دیدار نے حیران کیا
کون سا دن ہے کہ ہم نقش بہ دیوار نہیں
سرفروشی صفت کوہ کن آخر میں ہے
عشق پہلے تو بہت سہل ہے دشوار نہیں
دہن گور سے آتی ہے صدا میت کو
آج ہمدم نہیں تیرا کوئی غم خوار نہیں
دیکھ کر اس کو یہ ہوں محو برنگ تصویر
ہے زباں منہ میں مگر طاقت گفتار نہیں
چشم دل کھول اگر ہے طلب دید اکبرؔ
نظر آئے گا ان آنکھوں سے وہ دیدار نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |