ہوں کالبد خاک میں مہماں کوئی دن اور

ہوں کالبد خاک میں مہماں کوئی دن اور
by نہال سیوہاروی

ہوں کالبد خاک میں مہماں کوئی دن اور
قسمت میں ہے پابندیٔ زنداں کوئی دن اور

ہے دفتر عالم کو ضرورت ابھی میری
کرنی ہے مجھے خدمت عنواں کوئی دن اور

آنے ہی کو ہے موسم گل خیر منا لے
داماں کوئی دن اور گریباں کوئی دن اور

اے ابر یوں ہی قطرۂ فشاں رہ ابھی کچھ روز
مے خواروں پہ ہوتا رہے احساں کوئی دن اور

آمادۂ رخصت ہے مرا عہد جوانی
خاطر کا لہو چوس لے ارماں کوئی دن اور

کچھ روز ٹھہر اور بھی اے شمع شب افروز
پر نور رہے میرا شبستاں کوئی دن اور

کیوں روکش عالم ہے نہال جگر افگار
رہنا تھا نوا سنج غزلخواں کوئی دن اور

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse