ہو رہا ہے ابر اور کرتا ہے وہ جانانہ رقص
ہو رہا ہے ابر اور کرتا ہے وہ جانانہ رقص
برق گرد اس کے کرے ہے آ کے بے تابانہ رقص
دور میں چشم گلابی کے ترے اے بادہ نوش
بزم میں کرتا ہے مستوں کی طرح پیمانہ رقص
اس قد و رخسار پر اے شمع رو اس حسن پر
قمری و بلبل کرے ہے وجد اور پروانہ رقص
گھنگرو جانے ہے پاؤں میں وہ زنجیروں کے تئیں
کیوں نہ اس آواز پر بن بن کرے دیوانہ رقص
جس کے گھر آوے وہ حاتمؔ ناز سے رکھتا قدم
اٹھ کھڑا ہو کر کرے اس آن صاحب خانہ رقص
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |