ہو گیا ابرو کی سفاکی سے شہرا یار کا
ہو گیا ابرو کی سفاکی سے شہرا یار کا
کام کر جائے سپاہی نام ہو سردار کا
کوچۂ شہرگ سے کیا تیرا محل نزدیک ہے
دم گلے میں آ کے اٹکا ہے ترے بیمار کا
مثل عیسیٰ ان کی خدمت میں رسائی ہو گئی
پڑھ گئے کوٹھے پہ ہم زینہ لگا کردار کا
رات کو آنکھوں کے نیچے پھر گئی تصویر یار
واہ کیا چمکا ستارہ دیدۂ بے دار کا
قدرؔ کیا اصلاح غالبؔ سے مری شہرت ہوئی
وہ مثل ہے باڑھ کاٹے نام ہو تلوار کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |