ہیں اشک مری آنکھوں میں قلزم سے زیادہ
ہیں اشک مری آنکھوں میں قلزم سے زیادہ
ہیں داغ مرے سینے میں انجم سے زیادہ
سو رمز کی کرتا ہے اشارے میں وہ باتیں
ہے لطف خموشی میں تکلم سے زیادہ
جز صبر دلا چارہ نہیں عشق بتاں میں
کرتے ہیں یہ ظلم اور تظلم سے زیادہ
مے خانے میں سو مرتبہ میں مر کے جیا ہوں
ہے قلقل مینا مجھے قم قم سے زیادہ
سو رقص سے افزوں ہے پری رو تری رفتار
پاؤں کی صدا لاکھ ترنم سے زیادہ
تکلیف تکلف سے کیا عشق نے آزاد
موئے سر شوریدہ ہیں قاقم سے زیادہ
معشوقوں سے امید وفا رکھتے ہو ناسخؔ
ناداں کوئی دنیا میں نہیں تم سے زیادہ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |