ہیں دہن غنچوں کے وا کیا جانے کیا کہنے کو ہیں
ہیں دہن غنچوں کے وا کیا جانے کیا کہنے کو ہیں
شاید اس کو دیکھ کر صل علیٰ کہنے کو ہیں
وصف چشم و وصف لب اس یار کا کہنے کو ہیں
آج ہم درس اشارات و شفا کہنے کو ہیں
آج ان سے مدعی کچھ مدعا کہنے کو ہیں
پر نہیں معلوم کیا کہویں گے کیا کہنے کو ہیں
جو وہ قد قامت سدا کہنے کو ہیں
اور عاشق وصف قد قامت ترا کہنے کو ہیں
پوچھ آ قاتل سے تو وہ کب کرے گا ہم کو قتل
آج ہم تاریخ مرگ آپ اے قضا کہنے کو ہیں
میں ترے ہاتھوں کے قرباں واہ کیا مارے ہیں تیر
سب دہان زخم منہ سے مرحبا کہنے کو ہیں
وہ جنازے پر مرے کس وقت آئے دیکھنا
جب کہ اذن عام میرے اقربا کہنے کو ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |