ہے آئینہ خانے میں ترا ذوق فزا رقص
ہے آئینہ خانے میں ترا ذوق فزا رقص
کرتے ہیں بہت سے ترے ہم شکل جدا رقص
بے زخم صدا دینے لگے ساز عجب کیا
گر کرنے لگیں خود بخود آلات غنا رقص
ہو گر نہ تری باغ میں آنے کی توقع
کیوں سرو کو تعلیم کرے باد صبا رقص
واں قافلہ منزل پہ بھی پہنچا مگر اب تک
ہم کرتے ہیں صحرا میں با آواز درا رقص
ہے وادئ غم وہ کہ گر آ جائیں ادھر خضر
رعشے سے کرے ہاتھ میں حضرت کے عصا رقص
معقول سہی وجد کا حیلہ مگر اے شیخ
اچھا نہیں با ایں ہمہ تمکیں و حیا رقص
یوں ہی تو خرابات میں آؤ کہ سراسر
یا بادہ ہے یا بنگ ہے یا نغمہ ہے یا رقص
یاں تم کو یہ آواز دف و چنگ مبارک
بے کشمکش خرقہ و تسبیح و ردا رقص
ناظمؔ ترے اشعار میں ہیں معنیٔ توحید
اس زمزمے پر کرتے ہیں مردان خدا رقص
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |