ہے اندھیرا تو سمجھتا ہوں شب گیسو ہے

ہے اندھیرا تو سمجھتا ہوں شب گیسو ہے
by رشید لکھنوی

ہے اندھیرا تو سمجھتا ہوں شب گیسو ہے
بند آنکھیں ہیں کہ اے یار نظر میں تو ہے

دم بہ دم کہتے ہو کیوں فکر میں ناحق تو ہے
غم کو کیا کام مرا سر ہے مرا زانو ہے

اس لیے دل کے طلب کرنے پہ میں روتا ہوں
تر نہ ہو آپ کا دامن کہ یہ اک آنسو ہے

آج پھر کل کی طرح ہجر کی رات آتی ہے
دیکھیے کیا ہو وہی دل ہے وہی پہلو ہے

ایک مدت کا ہے قصہ کسی جانب دل تھا
یہ نہیں یاد یہ پہلو ہے کہ وہ پہلو ہے

یاد ایام گذشتہ میں نہ تڑپوں کیوں کر
کہ ابھی تک مرے بستر میں تمہاری لو ہے

مجھ کو مانع ہے ادب ذبح میں کیوں کر تڑپوں
او ستم گر مرے سینے پہ ترا زانو ہے

ہے عیاں دل کے دھڑکنے سے کسی کی الفت
آج کل آپ کے پہلو میں مرا پہلو ہے

ہو گیا ہے جو مرے دل کا ستانا منظور
آج کل آپ کی ہر بات میں اک پہلو ہے

ترک الفت تو کچھ آساں نہیں مشکل ہے رشیدؔ
روکو آہوں کو ذرا ان پہ اگر قابو ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse