ہے تصور مجھے ہر دم تری یکتائی کا
ہے تصور مجھے ہر دم تری یکتائی کا
مشغلہ آٹھ پہر ہے یہی تنہائی کا
عشق میں رشک ہمیشہ سے چلا آتا ہے
دیکھو قابیل نے کیا حال کیا بھائی کا
جام سائل کی طرح ہیں مری آنکھیں در در
جب سے عاشق کسی کافر شیدائی کا
عشق کامل جو ہوا ننگ کہاں عار کہاں
دھیان بدمست کو رہتا نہیں رسوائی کا
ہجر میں گردش بیہودہ جو ہے اے ساقی
جام کیا کاسۂ سر ہے کسی سودائی کا
میری آنکھوں نے تجھے دیکھ کے وہ کچھ دیکھا
کہ زبان مژہ پر شکوہ ہے بینائی کا
قدم اغیار کا رکھنا ہو گوارا کیوں کر
تیرے در پر ہے مجھے شغل جبیں سائی کا
مجھ سے رہتا ہے رمیدہ وہ غزال شہری
صاف سیکھا ہے چلن آہوئے صحرائی کا
ہجر میں چٹکے جو غنچے ہوئی آواز تفنگ
صحن گلزار ہے میدان صف آرائی کا
جس نے دیکھا تجھے اے یار ہوا دیوانہ
ہے تماشا ترے ہر ایک تماشائی کا
سبزہ رنگوں کا یہ ہے خاک مقرر ناسخؔ
سبز رنگ اس لیے آتا ہے نظر کائی کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |