ہے حال جائے گریہ جاں پر آرزو کا

ہے حال جائے گریہ جاں پر آرزو کا
by میر تقی میر

ہے حال جائے گریہ جاں پر آرزو کا
روئے نہ ہم کبھو ٹک دامن پکڑ کسو کا

جاتی نہیں اٹھائی اپنے پہ یہ خشونت
اب رہ گیا ہے آنا میرا کبھو کبھو کا

اس آستاں سے کس دن پر شور سر نہ پٹکا
اس کی گلی میں جا کر کس رات میں نہ کوکا

شاید کہ مند گئی ہے قمری کی چشم گریاں
کچھ ٹوٹ سا چلا ہے پانی چمن کی جو کا

اپنے تڑپنے کی تو تدبیر پہلے کر لوں
تب فکر میں کروں گا زخموں کے بھی رفو کا

دانتوں کی نظم اس کے ہنسنے میں جن نے دیکھی
پھر موتیوں کی لڑ پر ان نے کبھو نہ تھوکا

یہ عیش گا نہیں ہے یاں رنگ اور کچھ ہے
ہر گل ہے اس چمن میں ساغر بھرا لہو کا

بلبل غزل سرائی آگے ہمارے مت کر
سب ہم سے سیکھتے ہیں انداز گفتگو کا

گلیاں بھری پڑی ہیں اے باد زخمیوں سے
مت کھول پیچ ظالم اس زلف مشک بو کا

وے پہلی التفاتیں ساری فریب نکلیں
دینا نہ تھا دل اس کو میں میرؔ آہ چوکا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse