ہے دل ناکام عاشق میں تمہاری یاد بھی
ہے دل ناکام عاشق میں تمہاری یاد بھی
یہ بھی کیا گھر ہے کہ ہے برباد بھی آباد بھی
دل کے مٹنے کا مجھے کچھ اور ایسا غم نہیں
ہاں مگر اتنا کہ ہے اس میں تمہاری یاد بھی
کس کو یہ سمجھایئے نیرنگ کار عاشقی
تھم گئے اشک مسلسل رک گئی فریاد بھی
سینے میں درد محبت راز بن کر رہ گیا
اب وہ حالت ہے کہ کر سکتے نہیں فریاد بھی
پھاڑ ڈالوں گا گریباں پھوڑ لوں گا اپنا سر
ہے مرے آفت کدے میں قیس بھی فرہاد بھی
کچھ تو اصغرؔ مجھ میں ہے قائم ہے جس سے زندگی
جان بھی کہتے ہیں اس کو اور ان کی یاد بھی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |