ہے دل کو جو یاد آئی فلک پیر کسی کی

ہے دل کو جو یاد آئی فلک پیر کسی کی
by بہادر شاہ ظفر

ہے دل کو جو یاد آئی فلک پیر کسی کی
آنکھوں کے تلے پھرتی ہے تصویر کسی کی

گریہ بھی ہے نالہ بھی ہے اور آہ و فغاں بھی
پر دل میں ہوئی اس کے نہ تاثیر کسی کی

ہاتھ آئے ہے کیا خاک ترے خاک کف پا
جب تک کہ نہ قسمت میں ہو اکسیر کسی کی

یارو وہ ہے بگڑا ہوا باتیں نہ بناؤ
کچھ پیش نہیں جانے کی تقریر کسی کی

نازاں نہ ہو منعم کہ جہاں تیرا محل ہے
ہووے گی یہاں پہلے بھی تعمیر کسی کی

میری گرہ دل نہ کھلی ہے نہ کھلے گی
جب تک نہ کھلے زلف گرہ گیر کسی کی

آتا بھی اگر ہے تو وہ پھر جائے ہے الٹا
جس وقت الٹ جائے ہے تقدیر کسی کی

اس ابرو و مژگاں سے ظفرؔ تیز زیادہ
خنجر نہ کسی کا ہے نہ شمشیر کسی کی

جو دل سے ادھر جائے نظر دل ہو گرفتار
مجرم ہو کوئی اور ہو تقصیر کسی کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse