ہے غزل میرؔ یہ شفائیؔ کی
ہے غزل میرؔ یہ شفائیؔ کی
ہم نے بھی طبع آزمائی کی
اس کے ایفائے عہد تک نہ جیے
عمر نے ہم سے بے وفائی کی
وصل کے دن کی آرزو ہی رہی
شب نہ آخر ہوئی جدائی کی
اسی تقریب اس گلی میں رہے
منتیں ہیں شکستہ پائی کی
دل میں اس شوخ کے نہ کی تاثیر
آہ نے آہ نارسائی کی
کاسۂ چشم لے کے جوں نرگس
ہم نے دیدار کی گدائی کی
زور و زر کچھ نہ تھا تو بار میرؔ
کس بھروسے پر آشنائی کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |