ہے ماہ کہ آفتاب کیا ہے
ہے ماہ کہ آفتاب کیا ہے
دیکھو تو تہ نقاب کیا ہے
میں نے تجھے تو نے مجھ کو دیکھا
اب مجھ سے تجھے حجاب کیا ہے
آئے ہو تو کوئی دم تو بیٹھو
اے قبلہ یہ اضطراب کیا ہے
اس بن ہمیں جاگتے ہی گزری
جانا بھی نہ یہ کہ خواب کیا ہے
مجھ کو بھی گنے وہ عاشقوں میں
اس بات کا سو حساب کیا ہے
سیپارۂ دل کو دیکھ اس نے
پوچھا بھی نہ یہ کتاب کیا ہے
اس مے کدۂ جہاں میں یارو
مجھ سا بھی کوئی خراب کیا ہے
قسمت میں ہماری مصحفیؔ ہائے
کیا جانے ثواب عذاب کیا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |