ہے مرا تار نفس تار قفس
ہے مرا تار نفس تار قفس
رشتہ برپا ہوں گرفتار قفس
مرغ دل کو ذبح اے صیاد کر
اور طائر ہیں سزاوار قفس
شوق بلبل کو اسیری کا جو ہو
ہو زر گل سے خریدار قفس
کیوں نہ میں رنگیں بیاں ہوں قید رنج
مرغ خوش خواں ہے سزاوار قفس
زندگی سے قید میں بھی ہوں سبک
گاہ بار دام گہہ بار قفس
مجھ سا بلبل قید ہو کر چھوٹ جائے
سو گئے کیا بخت بیدار قفس
چشم عالم میں اسیر دام ہے
روح ہے تن میں سزاوار قفس
پھاند کر آیا تھا دیوار چمن
پھاند جاؤں کیوں کہ دیوار قفس
کیا ہے داغ خون بلبل کی بہار
دیکھ اے صیاد گلزار قفس
کب کسی بلبل کو ملتا ہے گلاب
خون دل پیتا ہے بیمار قفس
ذبح کرنے کو اتارا نخل سے
سر مرا تھا پائے رفتار قفس
پوچھتا ہے کیا دل بلبل کا حال
دیکھ ظالم جسم افگار قفس
اشک کو ہے دام گیسو کی تلاش
طفل ہوتا ہے خریدار قفس
تا بہ کے ہوگا اسیر دام فکر
عرشؔ کر موقوف اشعار قفس
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |