ہے نقش درم جو نقش پا ہے

ہے نقش درم جو نقش پا ہے
by خواجہ محمد وزیر

ہے نقش درم جو نقش پا ہے
آپ آتے تو گھر درم سرا ہے

دل جلوہ ترا دکھا رہا ہے
شیشہ یہ مرا پری نما ہے

سلطان جہاں ہے جو گدا ہے
تیمور ہر اک شکستہ پا ہے

انساں بھی قدرت خدا ہے
کیا سنگ کو بت بنا دیا ہے

شیریں ہے دہن کرو شکر خند
ہنسنے میں تمہاری اک مزا ہے

مضمون پروانے بن کے آئیں
شبدیز قلم چراغ پا ہے

یاران گزشت گاں سے ہے انس
زندہ مردوں پہ مر رہا ہے

آیا نہیں خود فروش میرا
گویا مجھے مول لے لیا ہے

وہ رشک بہار و غیرت گل
گلگشت چمن کو جو گیا ہے

گلزار ہوا ہے پانی پانی
بلبل پانی کا بلبلا ہے

جو چاہئے عشق میں کیا وہ
ہم مر گئے کہئے مرحبا ہے

ہے جھوٹا کہوں جو راست ہے قد
یہ توسن حسن الف ہوا ہے

منہ جس نے دیا وہ رزق دے گا
گویا یہ دہاں آسیا ہے

توبہ کا نہ در ہو بند یا رب
جب تک در میکدہ کھلا ہے

ہے شیشۂ سبز گرم قلقل
طوطی مستوں کا بولتا ہے

کیا جسم ہے صاف اس پری کا
گویا قد آدم آئنہ ہے

بیگانہ کوئی نظر نہ آیا
آئنہ بھی صورت آشنا ہے

کیا خوف گنہ وزیرؔ کو ہو
حامی سلطان انبیا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse