ہے نگہباں رخ کا خال روئے دوست

ہے نگہباں رخ کا خال روئے دوست (1900)
by حبیب موسوی
324732ہے نگہباں رخ کا خال روئے دوست1900حبیب موسوی

ہے نگہباں رخ کا خال روئے دوست
حافظ قرآں ہوا ہندوئے دوست

ہم نہ ہوں پتھر ہو ہم پہلوئے دوست
آئینہ لوٹے بہار روئے دوست

پھر گئی جب نرگس جادوئے دوست
سب مسلماں ہو گئے ہندوئے دوست

بھا گئی ہے دل کو ایسی خوئے دوست
آتی ہے ہر گل سے مجھ کو بوئے دوست

ہے خیال عارض و گیسوئے دوست
گہ مسلمان ہوں کبھی ہندوئے دوست

سو بلائیں آ گئیں عشاق پر
جب کمر تک آ گئے گیسوئے دوست

ہڈیاں میری نہ کھانا اے ہما
دانت رکھتے ہیں سگان کوئے دوست

آگ بھڑکے کیوں نہ پہلو میں مرے
غیر ہیں واں آج ہم پہلوئے دوست

اصل یہ ہے نقل محراب حرم
سجدہ واجب ہے تہہ ابروئے دوست

تیغ ابرو پر کٹے لاکھوں گلے
بن گیا گنج شہیداں کوئے دوست

دل ہوا مفتوں نگاہ یار کا
شیر افگن ہیں مگر آہوئے دوست

بعد مردن قبر میں آٹھوں پہر
آئے گا مجھ کو خیال روئے دوست

پھر رہا ہے آج پتلی کی طرح
میری آنکھوں میں قد دل جوئے دوست

ہے خیال خال مشکیں رات دن
دل کو میرے جان لو مشکوئے دوست

اب وہی سر ہے کہ ٹکراتا ہوں میں
وصل میں یہ تھا سر زانوئے دوست

کیا کوئی آفت ابھی باقی ہے اور
لے چلا ہے دل مجھے پھر سوئے دوست

لے اڑی بے ساختہ دل کو مرے
آ گئی جس دم ہوائے کوئے دوست

رنگ الفت سے مٹا زنگ دوئی
ہو گئی ہے مجھ میں پیدا بوئے دوست

غیرت منصور ہوں میں اے حبیبؔ
ہر گھڑی ہوں صرف ہا و ہوئے دوست


This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.