یاد ایام کہ ہم رتبۂ رضواں ہم تھے

یاد ایام کہ ہم رتبۂ رضواں ہم تھے
by تعشق لکھنوی
303926یاد ایام کہ ہم رتبۂ رضواں ہم تھےتعشق لکھنوی

یاد ایام کہ ہم رتبۂ رضواں ہم تھے
باغبان چمن محفل جاناں ہم تھے

قابل قتل نہ اے لشکر مژگاں ہم تھے
دل کی اجڑی ہوئی بستی کے نگہباں ہم تھے

دھجیاں جیب کی ہاتھوں میں ہیں آج اے وحشت
جامہ زیبوں سے کبھی دست و گریباں ہم تھے

جان لی گیسوؤں نے الفت رخ میں آخر
کافروں نے ہمیں مارا کہ مسلماں ہم تھے

غیر کے گھر کی طرف کے جو اٹھے تھے پردے
عطر بالوں میں وہ ملتے تھے پریشاں ہم تھے

قفس تنگ میں گھٹ گھٹ کے نہ مرتے کیوں کر
ناز پروردۂ آغوش گلستاں ہم تھے

روح تڑپی ہے پئے لالۂ صحرا کیا کیا
فصل گل جوش پہ تھی قیدئ زنداں ہم تھے

دل کے دینے میں تأمل ہمیں ہوتا کیوں کر
یہ حسینوں کی امانت تھی نگہباں ہم تھے

آج تھی شب کو بہت داغ جگر میں سوزش
کہتی تھی ان کی ملاحت نمک افشاں ہم تھے

شعلۂ حسن سے تھا دود دل اپنا اول
آگ دنیا میں نہ آئی تھی کہ سوزاں ہم تھے

ہر طرف دہر میں تھا زلف کی زنجیر کا گل
مگر اے جوش جنوں سلسلہ جنباں ہم تھے

قافلے رات کو آتے تھے ادھر جان کے آگ
دشت غربت میں جدھر اے دل سوزاں ہم تھے

کہتے ہیں عارض محبوب کہ تھی رات جو گرم
چاند پر اوس پڑی تھی عرق افشاں ہم تھے

طوق منت کے گلے میں تھے وہ دن یاد کرو
تم پر اس عہد میں بھی چاک گریباں ہم تھے

دیتے پھرتے تھے حسینوں کی گلی میں آواز
کبھی آئینہ فروش دل حیراں ہم تھے

ڈوب جاتے ہیں جو رہ رہ کے تعشقؔ تارے
مثل ابر آخر شب وصل میں گریاں ہم تھے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.