یار کی تصویر ہی دکھلا دے اے مانی مجھے
یار کی تصویر ہی دکھلا دے اے مانی مجھے
کچھ تو ہو اس نزع کی مشکل میں آسانی مجھے
اف بھی کر سکتا نہیں اب کروٹیں لینا کجا
زخم پہلو سے ہے وہ تکلیف روحانی مجھے
زاہد مغرور رونے پر مرے ہنستا ہے کیا
بخشوائے گا یہی اشک پشیمانی مجھے
دل کو اس پردہ نشیں سے غائبانہ لاگ ہے
کھینچ لے گا اک نہ اک دن جذب روحانی مجھے
یا رب آغاز محبت کا بخیر انجام ہو
دل لگا کر ہو رہی ہے کیا پشیمانی مجھے
لو لگی ہے یار سے اپنی طرف کھینچے گا کیا
جلوۂ نقش و نگار عالم فانی مجھے
وحشیوں کے واسطے قید لباس اچھی نہیں
زیب دیتا ہے یہی تشریف عریانی مجھے
جوش وحشت میں زمیں پر پاؤں پڑھنے کا نہیں
لے اڑے گی نکہت گل کی پریشانی مجھے
خاک ہو جانے پہ بھی ممکن نہ ہوگا دسترس
ہاتھ ملوائے گی تیری پاک دامانی مجھے
درد کا ساغر بھی ساقی میری قسمت میں نہ تھا
شوق میں کرنا پڑا آخر لہو پانی مجھے
مرد جاہل ہوں کجا میں اور کجا اہل کمال
یاسؔ کیا معلوم انداز غزل خوانی مجھے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |