یاں چلا آئے جو وہ سیم بدن آپ سے آپ
یاں چلا آئے جو وہ سیم بدن آپ سے آپ
دفع ہو دل سے مرے رنج و محن آپ سے آپ
مت رہو چیں بہ جبیں اس سے کہ کوئی دن میں
اس سے بے ساختہ وہ دے گی شکن آپ سے آپ
کل اسے دیکھ کے بھر آئی جو چھاتی میری
بھر گئے سینے کے سب زخم کہن آپ سے آپ
اس کے رخسار کو کب دل سے بھلایا ہم نے
رک گیا ہم سے وہ کچھ رشک چمن آپ سے آپ
اثر جذب یوں غربت میں دکھاؤں عارف
آ کے موجود ہو وہ ملک وطن آپ سے آپ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |