یاں کسے غم ہے جو گریہ نے اثر چھوڑ دیا

یاں کسے غم ہے جو گریہ نے اثر چھوڑ دیا
by نظام رامپوری

یاں کسے غم ہے جو گریہ نے اثر چھوڑ دیا
ہم نے تو شغل ہی اے دیدۂ تر چھوڑ دیا

دل بے تاب کا کچھ دھیان نہ آیا اس دم
ہائے کیوں ہم نے اسے وقت سحر چھوڑ دیا

کیا ستائے نہیں جاتے ہیں ولیکن چپ ہیں
شکوہ کرنا ترا اے رشک قمر چھوڑ دیا

دم رخصت کبھی کچھ دل کی تمنا نہ کہی
دامن یار ادھر پکڑا ادھر چھوڑ دیا

دل کی الفت نہ سہی پیار کی باتیں نہ سہی
دیکھنا بھی تو ادھر ایک نظر چھوڑ دیا

غیر کے دھوکے میں خط لے کے مرا قاصد سے
پڑھنے کو پڑھ تو لیا نام مگر چھوڑ دیا

غیر سے وعدہ و اقرار ہوئے کیا کیا کچھ
میرے خوش کرنے کو اک فقرہ ادھر چھوڑ دیا

میں نہ کہتا تھا کہ بہکائیں گے تم کو دشمن
تم نے کس واسطے آنا مرے گھر چھوڑ دیا

منہ سے جو کہتے ہیں وہ کر کے دکھا دیں گے تمہیں
بے قراری نے ہمیں چین پہ گر چھوڑ دیا

حور بھی سامنے اب آئے تو کب دیکھیں نظامؔ
برسیں گزریں ہمیں وہ شوق نظر چھوڑ دیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse