یونہی بیٹھے رہو بس درد دل سے بے خبر ہو کر

یونہی بیٹھے رہو بس درد دل سے بے خبر ہو کر
by مجاز لکھنوی

یونہی بیٹھے رہو بس درد دل سے بے خبر ہو کر
بنو کیوں چارہ گر تم کیا کروگے چارہ گر ہو کر

دکھا دے ایک دن اے حسن رنگیں جلوہ گر ہو کر
وہ نظارہ جو ان آنکھوں میں رہ جائے نظر ہو کر

دل سوز آشنا کے جلوے تھے جو منتشر ہو کر
فضائے دہر میں چمکا کئے برق و شرر ہو کر

وہی جلوے جو اک دن دامن دل سے گریزاں تھے
نظر میں رہ گئے گل ہائے دامان نظر ہو کر

فلک کی سمت کس حسرت سے تکتے ہیں معاذ اللہ
یہ نالے نارسا ہو کر یہ آہیں بے اثر ہو کر

یہ کس کے حسن کے رنگین جلوے چھائے جاتے ہیں
شفق کی سرخیاں بن کر تجلی کی سحر ہو کر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse