یوں عیاں تجھ کو دیکھتے ہیں ہم
یوں عیاں تجھ کو دیکھتے ہیں ہم
کہ نہاں تجھ کو دیکھتے ہیں ہم
نہیں وادید ماسوا درکار
بے نشاں تجھ کو دیکھتے ہیں ہم
غیر کی واں نظر نہیں جاتی
اب جہاں تجھ کو دیکھتے ہیں ہم
دیدنی کچھ نہیں زمانے میں
جاوداں تجھ کو دیکھتے ہیں
جان دینے پہ کیوں نہ ہوں راضی
جاں ستاں تجھ کو دیکھتے ہیں ہم
یوں کریں ہم کو پائمال عدو
آسماں تجھ کو دیکھتے ہیں ہم
یوں وہ گل گشت کو چلے آئیں
گلستاں تجھ کو دیکھتے ہیں ہم
آج اپنا کہا سنا ہو معاف
ناگہاں تجھ کو دیکھتے ہیں ہم
آرزو گو کہ ایک حرف ہے تو
داستاں تجھ کو دیکھتے ہیں ہم
نہ کریں اب کلیم سے بھی کلام
ہم زباں تجھ کو دیکھتے ہیں ہم
ہم اور اغیار سے گلا تیرا
بد گماں تجھ کو دیکھتے ہیں ہم
اور کرنا ہے چرخ کو دشمن
مہرباں تجھ کو دیکھتے ہیں ہم
اس کا آنا یقیں ہے کیا سالکؔ
نگراں تجھ کو دیکھتے ہیں ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |