یوں مجھے آپ سے اب کرتی ہے تقدیر جدا
یوں مجھے آپ سے اب کرتی ہے تقدیر جدا
جس طرح جنگ میں ہو قبضے سے شمشیر جدا
مس کے زر ہونے سے بہتر ہے کمال انساں
خاکساری ہے جدا اور ہے اکسیر جدا
جائے دنداں لب سوفار ہوئے اے قاتل
دہن زخم سے ہوگا نہ ترا تیر جدا
مرض عشق میں پیٹھ اپنی یہ بستر سے لگی
نہ کبھی صفحہ سے جس شکل ہو تصویر جدا
اے جنوں پاؤں ہیں جب تک یہ تمنا ہے مجھے
کبھی مانند رگوں کے نہ ہو زنجیر جدا
چھوڑوں کیا پیری میں شیریں دہنوں کی صحبت
نہیں ممکن کہ ہوں مل کر شکر و شیر جدا
کہتے ہیں دیکھ کے زلف اس کے رخ تاباں پر
کبھی ہوتا نہیں اس شمع سے گل گیر جدا
جب جدائی کے مضامین مجھے سوجھے ہیں
حرف سے حرف ہوا ہے دم تحریر جدا
کیوں نہ ہو جلوۂ خورشید سے سائے کا وجود
کیا ترے چہرے سے ہو زلف گرہ گیر جدا
مجھ گرفتار جدائی کے جو پاؤں میں پڑی
ہو جنوں حلقے سے ہر حلقۂ زنجیر جدا
میں نے جو درد جدائی سے کیے ہیں نالے
کیجیے تن سے مرا سر پئے تعزیر جدا
تیغ آہن سے سوا ہے برش تیغ زباں
حق کو باطل سے کرے گی تری تقریر جدا
آشنا متحد اس درجہ کہاں ہوتے ہیں
آپ دلگیر ہے ناسخؔ جو ہے دلگیر جدا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |