یک دو جام اور بھی دے تو ساقی

یک دو جام اور بھی دے تو ساقی
by مرزا جواں بخت جہاں دار

یک دو جام اور بھی دے تو ساقی
نہ رہے دل میں آرزو ساقی

میری تسکیں نہ ہوگی ساغر سے
منہ سے میرے لگا سبو ساقی

رات و دن مے کشوں کو رہتی ہے
تیری ہی یاد و جستجو ساقی

رند مفلس کو دے ہے زیاد شراب
بھائی مجھ کو تری یہ خو ساقی

آہ تجھ بن ہیں زار و نالاں ہم
بھولی مستی کی ہاو ہو ساقی

شیشۂ مے کی طرح سے ہم آج
رکھتے ہیں گریہ در گلو ساقی

کسی کے آگے مثل ساغر ہم
لاتے ہیں دست آرزو ساقی

لاتے ہیں مثل شیشۂ بادہ
تیرے ہی آگے سرفرو ساقی

رو نہیں اس کو بزم مستاں میں
جس کے تئیں تو نہ دیوے رو ساقی

دے جہاں دارؔ کو وہ مے جس کا
ہووے گل کا سا رنگ و بو ساقی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse