یہاں کیا ہے وہاں کیا ہے ادھر کیا ہے ادھر کیا ہے
یہاں کیا ہے وہاں کیا ہے ادھر کیا ہے ادھر کیا ہے
کوئی سمجھے تو کیا سمجھے وہ نیرنگ نظر کیا ہے
نہ ہو جس سر میں سودا سرفروشی کا وہ سر کیا ہے
نہ پھونکے خرمن ہستی تو وہ سوز جگر کیا ہے
ترے انداز کے بسمل ہیں ہم ہم سے کوئی پوچھے
تری بانکی ادا کیا ہے تری ترچھی نظر کیا ہے
جہاں سامان وحشت کے اسے وحشت سرا کہیے
جہاں اسباب ویرانی وہ ویرانہ ہے گھر کیا ہے
گئے وہ اور یہ کہتے گئے او جذب دل والے
مجھے بھی دیکھنا ہے جذبۂ دل کا اثر کیا ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |