یہاں ہر آنے والا بن کے عبرت کا نشاں آیا
یہاں ہر آنے والا بن کے عبرت کا نشاں آیا
گیا زیر زمیں جو کوئی زیر آسماں آیا
نہ ہو گرم اس قدر اے شمع اس میں تیرا کیا بگڑا
اگر جلنے کو اک پروانۂ آتش بجاں آیا
خدا جانے ملا کیا مجھ کو جا کر ان کی محفل میں
کہ باصد نامرادی بھی وہاں سے شادماں آیا
جمایا رنگ اپنا میں نے مٹ کر تیرے کوچے میں
یقین عشق میرا اب تو تجھ کو بدگماں آیا
نہ ہو آزردہ تو آزردگی کا کون موقع ہے
اگر محفل میں تیری وحشتؔ آزردہ جاں آیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |